مفکر اسلام، مفسر قرآن، ضیاء الامت، حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللّٰہ علیہ
محمد۔۔۔۔سرکار دو عالم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا ذاتی نام ہے۔ جب یہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی ذات گرامی کے لیے بولا جائے تو اس وقت اسکا دائرہ العالمین ہوتا ہے۔ جب آپکی امت کے کسی ولی کے لیے بولا جائے تو وہاں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے فیض کا مظہر ہونے کی حثییت سے بولا جاتا ہے اور ساتھ مقصود نامِ محمد کی برکات کا حصول بھی ہوتا ہے۔ کریم یہ اللہ تعالٰی کی صفت کاملہ ہے اور اسکا فیضان مخلوق میں سب سے پہلے حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کو بدرجہ اتم نصیب ہوا اور پھر آپکی وساطت سے حسب ظرف اور حسب مرتبہ یہ صفت آپکی امت کے منتخب افراد کو عطا کی گئی۔۔۔۔انہی ہستیوں میں ایک شخصیت مفکر اسلام، مفسر قرآن، ضیاء الامت، حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ہے۔
جو لوگ آپ سے ملے ہیں وہ اچھے طریقے سے جانتے ہیں کہ
👈پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللّٰہ علیہ ایک ہشت پہلو ہیرے کا نام ہے۔۔۔۔جس کی ہر جہت چمک چمک کر زمانے کو کرم کی بھیک عطا کر رہی ہے۔
👈پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللّٰہ علیہ نور کے ایسے دھارے کا نام ہے جو شمس و قمر سیال سے مستنیر ہوکر سارے جہان کو خیرات نور بانٹ رہا ہے۔
👈پیر محمد کرم شاہ الازہری ایسے پھول کا نام ہے جس کو سونگھنے والا جتنی عقیدت اور محبت سے سونگھے۔۔۔۔اس کے مشامِ ایمان اتنے زیادہ معطر ہو جاتے ہیں آپکے اسم گرامی کے ساتھ اگر شخصیت کا ربط تلاش کریں گے تو۔۔۔۔
👈آپ کی نوک قلم سے نکلنے والا ہر حرف اسکی گواہی دے گا اور کہے گا مجھے لکھنے والے نے نفرتوں کے فروغ کے لیے نہیں لکھا بلکہ انسانیت کو جہنم سے بچانے کے لیے اور حق کی راہ دکھانے کے لیے لکھا ہے۔
👈انکے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے والا آپکا ہر شاگرد آپکی خوئے دلبری کی شہادت دے گا۔
👈زندگی کے کسی بھی موڑ پہ ملنے والا ہر،ہر فرد انکے دل جیتنے والے حسین رویے کی تعریف کرتا نظر آئے گا اور ہر ارادت مند انکی کرم نوازیوں کو بیان کرتا نظر آئے گا
حضرت پیر محمد کرم شاہ رحمۃ اللّٰہ علیہ
مقام احسان وہ کیف بداماں روحانی اور وجدانی مقام ہے، جسکے حصول کی کوشش بندۂ مومن سات سال کی عمر سے با قاعدہ شروع کر دیتا ہے، وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ معرفت نشان ہے۔
(مُرُوْاصِبْیَا نَکُمْ اِذَابَلَغُوْا سَبْعًا وَاضْرِبُوْھُمْ اِذَا بَلَغُوْاعَشْرًا)
یعنی جب بچے سات سال کے ہو جائیں، تو ان کو نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہو جائیں، تو ہلکی پھلکی مار سے بھی انہیں مجبور کرو، کہ وہ نماز ادا کریں۔
اور جب بچے کی نماز کے حوالے سے تربیت کی جارہی ہو گی، تو وہ یقیناً پوچھے گا کہ نماز کیسے پڑھنی ہے؟ تو استاد محترم یا والدین یہ حدیثِ پاک اس بچے کو پڑھائیں گے:
ان تعبداللہ کانک تراہ فَاِنْ لم تکن تراہ فانہ یریک
کہ اللّٰہ کی عبادت اتنے بلند تصور کے ساتھ اور عالی فکر کے ساتھ کیا کرو۔۔۔۔جیسے تم اسکے جمالِ مطلق کی جھلک بمطابق ظرفِ خود دیکھ رھے ہو اور اگر یہ تصور نہ باندھ سکو تو پھر یہ تصور تو رکھو کہ اللّٰہ کریم تمھیں دیکھ رہا ہے، سبحان اللّٰہ ایک مسلمان کے گھر میں پیدا ہونے والے بچے کو کتنی چھوٹی عمر میں شوق کی یہ نعمت گفٹ کی جارہی ہے، آپ ذرا تصور فرمائیں کہ ایک سات سال کا بچہ جب اپنی بھولی بھالی معصومانہ اداؤں سے اپنے محبوب حقیقی جل جلالہ کی جھلک پانے کیلئے یا اسکی نگاہِ التفات میں آنے کیلئے مشق شروع کر دے۔۔۔تو اسکا دور شباب روحانیت کی کن رفعتوں اور بلندیوں کا آئینہ دار ہوگا۔
کچھ خوش نصیب بچے تو ایسے بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔جنکو ماں کی گود اور باپ کی آغوش سے ہی سوز دروں کی یہ گھٹی مل جاتی ہے، انکی آنکھیں بے نیاز کی بارگاہ میں آنسوؤں کے نذرانے پیش کرنے کی بہت جلد عادی ہو جاتی ہیں، انکی روحیں ذکر و فکر کے گلستانوں میں محو سفر رھتی ھیں، مثلاً آپ دیکھیں کہ
حضرت پیر شاہ ھاشمی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوتا ہے، گھر کے ماحول کی پاکیزگی کی وجہ سے اس پر صبغۃ اللّٰہ کا نورانی رنگ اتنا گہرا ہے کہ اسکا طریقہ بندگی سننے والے اور دیکھنے والے پر بھی عشق کے رنگ کی سرخی نظر آنے لگتی ھے۔
وہ بندۂ خدا جو گھر کی رونق اور راحت بخش بستر چھوڑ کر سردیوں کی یخ بستہ راتوں میں دریائے جہلم کے کنارے ایک ویرانے میں زمانے کی آنکھ سے بچ بچا کر اپنے محبوب حقیقی کے حضور سجدہ ہائے شوق کرنے کے لیے کشاں کشاں جا رہا ہے، اور پھر دریائے جہلم کے ٹھنڈے پانی سے وضو کر رہا ہے، اور سو سو دفعہ کلی کرتے ہوئے اپنے آپ سے مخاطب ہے، کہ امیر شاہ! تو نے سبحان کی شان رکھنے والے مالک کا نام لینا ہے، ذرا منہ کو اور مانج لو، منہ کو مزید صاف کر لو ، اھل عشق کی باطنی کیفیات کا یہ شعر کتنا اچھا ترجمان ہے۔
رات ھنیری گھمن گھیری، دریا ٹھاٹھاں مارے
اوہ کی جانن سار اساڈی جہڑے رھن کنارے
قارئین کرام!
اگر آپ احساس کی بستی کے باسی ہیں، تو ذرا احساس و ادراک کے کسی پیمانے سے اس مرد کامل کے شوق کو ناپنے، تولنے کی کوشش کر کے تو دیکھو۔۔۔۔ہو سکتا ہے ایسے پیمانے کی تلاش میں آپکی اپنی روح سرشار محبت ہو کر مصروف وجد ہو جائے، اور عشق کا ایسا تیر چل جائے جو آپکے اپنے دل میں ترازو ہو جائے، حضرت امیر السالکین رحمۃ اللّٰہ علیہ کا یہ ایک دن کا قصہ نہیں۔۔۔۔عمر کے اکثر حصہ کا وطیرہ ہے گویا آپکی پوری زندگی۔۔۔۔۔!
ہر شب شب قدر است گر قدر دانی
کا مصداق اتم ہے۔
اس قافلہ سلوک کے امیر نے اپنی شب زندہ داریوں میں مقام احسان پر فائز ہو کر جب رب اجعلنی مقیم الصلوۃ ومن ذریتی اے میرے روح و جسم کے پروردگار! مجھے کما حقہ نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی ایسے رجال کار پیدا فرما۔۔۔۔جو مقام احسان پہ قائم کی جانے والی نماز کے عادی ہوں، تیرے جلوؤں میں ڈوبے رہنے کے خوگر ہوں، پھر جب اللہ کریم نے شوق و عشق میں ڈوبی ہوئی آپکی ان مناجات کو شرف قبولیت بخشا تو جتنا حسن آپکی اس حسین آرزو میں تھا۔۔۔۔اسکے شایان شان نفوس قدسیہ آپکی اولاد امجاد میں پیدا فرمائے، انکے باطنی حسن کو دیکھنا تو اصحاب بصیرت کے بس کی بات ہے، ہمارے کشور دل کو فتح کرنے کے لیے تو انکے حسن ظاہر کی ایک جھلک ہی کافی ہے۔
حضرت غازی اسلام پیر محمد شاہ رحمۃ اللّٰہ علیہ اتنے خوبصورت ہیں کہ مدینہ طیبہ کے ایک مقتدر شیخ جن کی زندگی دہلیز مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم پہ گزری ہے، انکا ارشاد ہے۔
اس سلطان حسن، شہنشاہ جمال، حضرت محمد مصطفٰی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے حضور رنگا رنگ غلام حاضر ہوتے ہیں، لیکن پیر محمد شاہ بھیروی کی مثال کم ہی دیکھی ہے، انکے چہرہ سے حضور سراج منیر صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا فیضِ حسن جھلکتا ہے۔
حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللّٰہ علیہ اتنے حسین ہیں کہ اگر کوئی کور چشم حسد کے عارضہ کا شکار ہو کر چار گھنٹے آپکے خلاف تقریر کرے اور چار گھنٹوں کے بعد اس مجمع کو حضور ضیاءالامت رحمۃ اللہ علیہ کی فقط تصویر دکھا دی جائے کہ اس ھستی کے خلاف بولنے والا بول رہا تھا، تو لوگ کہیں گے، تقریر کرنے والا جھوٹ بول رہا تھا۔۔۔۔یہ بابا جی سچے ہیں، اس لیے کہ جھوٹے کے چہرہ پر اتنی رونق اور اتنا نور نہیں ہوتا، صحت مند نظر کو تو آپکے چہرہ مبارک پر ملکوتیوں کا سا حسن نظر آتا ہے۔
حضرت پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب مدظلہ العالی اتنے جمیل ہیں کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ہو یا کوئی بہت بڑی کانفرنس، علماء کی مجلس ہو یا مشائخ کا اجتماع، ہزاروں میں آپ سب سے منفرد نظر آتے ہیں، آفتاب نیمروز کی روشنی کی بات خوشامد نہیں ہوتی بلکہ اگر زاویہ نظر درست ہو تو اسکو بیانِ حقیقت بھی کہا جا سکتا ہے۔
یہ میں نے نمائندہ تین شخصیات کی بات کی ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سارا گلشن ہی حسن و جمال کی ثروتوں سے مالا مال ہے۔
آمدم برسرمطلب حضرت امیر السالکین پیر امیر شاہ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بعد حضرت غازی اسلام پیر محمد شاہ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اسی طرح مصلی کو آباد کیا جیسے آپکے بزرگوں کا معمول تھا۔۔۔۔بلکہ ماہ رمضان المبارک کی مقدس ترین اور مقبول ترین راتوں میں۔۔۔۔۔اوابین کے نوافل میں، تراویح میں، نماز تہجد میں اور پھر طاق راتوں میں یعنی ایک ماہ میں چار مرتبہ قرآن کریم سنا کر،
مقام احسان کی لذتیں پاکر،
محبوب حقیقی کے پیار میں آنسو بہا کر،
سر مژگاں پیار کے دیئے جلا کر،
اور ظرف دل کو کشکول بناکر، جب
رب اجعلنی مقیم الصلوۃ و من ذریتی
کے کلمات محبت پیش کیے تو انکی قبولیت کی خوشبو کو ضیاء الامت پیر محمد کرم شاہ رحمۃ اللّٰہ علیہ اور دیوانِ کریم پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب مد ظلہ العالی کہا جانے لگا۔
پھر اگلا منظر نامہ یہ تھا کہ باپ گلشن محبت کا بانی بنا تو بیٹا ذمہ دار مالی بن گیا۔
باپ کے اشھب قلم نے سینۂ قرطاس پہ نور افشانیاں کیں، تو بیٹے نے اسکی چمک اور اس کے فیض کی حفاظت کا حق ادا کر دیا۔
باپ سپریم کورٹ کی کرسی کے لیے نشان عدل بنا، تو بیٹا حجاج کرام کی خدمت کر کے صاحب فضل بنا، دونوں باپ بیٹا نے سرکاری ڈیوٹی سر انجام دے کر یہ ثابت کر دیا کہ اگر نیت صالح ہو تو بغیر کرپشن کے بھی کام کیا جا سکتا ہے اور ملک کو خوشحالی اور انصاف کی طرف لے جایا جا سکتا ہے۔
باپ نے دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کی نشاۃ ثانیہ کر کے اسکو عصری ضرورتوں کا نقیب بنایا، تو بیٹے نے اسکی نشاۃ ثالثہ کرکے اور اسکو یونیورسٹی میں تبدیل کرکے اہل سنت کے بچوں کا نصیب جگایا۔
باپ نے نمود و نمائش کی آلائش سے خود کو بچا کر ہمیشہ خدا اور رسول کی رضا کی تلاش میں زندگی بتائی ہے، تو بیٹے نے بھی یہی رسم محبت نبھائی ہے۔
باپ اگر اخلاص و للہیت کی شاہراہ پر گامزن رہا ہے تو بیٹا بھی اسی اخلاص و للہیت کی شمع کی حفاظت میں سوئے منزل رواں دواں ہے، بلکہ یہ خلوص و وفا کی دولت اپنی اگلی نسلوں کو بانٹ رہا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ان ساری ہستیوں کو دیکھ کر انکے بزرگوں کے مقام احسان پر مانگی ہوئی دعاؤں کی تاثیر دیکھنے کو ملتی ہے اور یہ احساس بیدار ہوتا ہے کہ ہمیں بھی ایسے ہی خلوص کے ساتھ دعائیں مانگنی چاہیں، ہو سکتا ہے قبولیت کا کوئی لمحہ نصیب ہو جائے اور اگلی نسلوں میں صدقہ جاریہ کی کوئی صورت بن جائے۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ کریم آستان عظمت نشان بھیرہ شریف کی عظمتوں رفعتوں اور بلندیوں میں ہر روز اضافہ فرمائے اور چشتیہ کے میکدہ محبت کی شراب معرفت ہمیشہ یہاں سے تقسیم ہوتی رہے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضرت ضیاء الامت پیر محمد کرم شاہ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا سالانہ عرس مبارک 19،20 محرم الحرام کو پورے شرعی آداب کے ساتھ بھیرہ شریف میں منعقد ہوتا ہے، اصحاب ذوق شرکت کرسکتے ہیں۔
حضور ضیاءالامت رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خزانہ غیب سے نصرت
حضرت ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے احساسات و مدرکات ہمیشہ رضائے الٰہی کے گرد محو طواف رہتے تھے، حکمۃ الاسبوع کے نام سے ہر جمعرات اپنے طلبہ کو جو پند و نصائح کے موتی آپ عطا فرماتے، ان میں بکثرت آپ یہ آیت تلاوت فرماتے۔
قل ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للّہ رب العالمین
(اے میرے میٹھے لہجے والے، پیاری اداؤں والے محبوب) آپ دنیا کو یہ روشن حقیقت بتا دیجیے، بے شک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی کا لمحہ لمحہ، اور میری موت یہ سب کچھ اللہ تعالی کے لیے ہیں، جو سارے جہانوں کو نکتہ آغاز سے اٹھا کر معراج کمال تک پہنچانے والا ہے۔
حضرت ضیاء الامت رحمۃ اللہ علیہ اتنی دل سوزی اور اخلاص کے ساتھ اسکی وضاحت فرماتے ایسے لگتا جیسے آپ اپنے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے والوں کی رگ رگ میں اسکا مفہوم اتار دینا چاہتے ہیں۔
آپ کے صبح و مسا محبت الہی کے چراغوں سے روشن تھے، آپکے سفر و حضر کا اثاثہ ذکر الہی تھا، آپکے عسر و یسر میں توکل و شکر کی چمک موجود تھی۔
1967-68ء کی بات ہے آپ سبق پڑھانے کے لیے اپنی مسند شریف پر رونق افروز ہوئے تو بدر کامل جیسے چہرے پر ہم نے کچھ پریشانی کے آثار دیکھے، اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ایک صاحب جمال شخصیت تھے، لیکن اللہ کریم نے آپ کو حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی نُصِرْتُ بِالرُّعْب کی شان کا فیض بھی عطا فرما رکھا تھا، اس لیے کسی کو پوچھنے کی جرات نہ ہوئی۔
مولانا پیر عبد الباری چشتی صاحب خلیفہ مجاز آستانہ عالیہ بھیرہ شریف فرماتے ہیں کہ میرے اوپر آپ حد درجہ مہربانی فرمایا کرتے تھے، مجھے بھی فوری پوچھنے کی جرأت نہ ہو سکی لیکن ذہن میں پروگرام بنایا کہ پیریڈ کے بعد عرض کرتا ہوں، ابھی ہم سبق پڑھ رہے تھے کہ ڈاکیا فضل کریم حاضر ہوا اور اس نے آپ کی خدمت میں منی آرڈر پیش کیا، دیکھ کر آپکی طبیعت نہال ہو گئی، چہرہ مبارک پر گل نو شگفتہ کی تازگی نظر آنے لگی۔
آپ نے ارشاد فرمایا:
عزیزان! آپ کو معلوم ہے کہ میں ہر ماہ کی 6 تاریخ کو دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کے اساتذہ کرام کو تنخواہ پیش کرتا ہوں، آج صبح جب میں نے سیکرٹری صاحب سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ دارالعلوم کے پاس کوئی شے نہیں اور نہ ہی آپ کے گھر والے کھاتہ میں کوئی چیز ہے۔
فکر دامن گیر تھی کہ اساتذہ کرام کی تنخواہ کا کہاں سے انتظام کروں، کس دوست سے ادھار لیا جائے، بس سبق کے دوران بھی ذھن اسی خیال میں تھا۔
دیکھیں! میرا رب کتنا کریم ہے, کہ اس نے اتنے ہی پیسے بهجوا دیے ہیں جتنی ہمیں فوری ضرورت تھی ہمارے ادارے کے اساتذہ کرام کی تنخواہ 6000 بنتی ہے اور الحمدللہ میرے مالک نے پورے چھ ہزار ہی عطا فرمائے ہیں۔
مولانا عبدالباری صاحب ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ منی آرڈر حیدرآباد سے آیا تھا، حضور ضیاء الامت رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے دن تو ارشاد فرمایا پتہ نہیں، یہ کون اللہ کا بندہ ہے، جس کے دل میں اللہ نے یہ بات ڈال دی ہے، لیکن جب اگلے دن ہم لوگ کلاس میں گئے تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے وہ دوست یاد آگئے ہیں، وہاں حیدرآباد میں کچھ عرصہ پہلے ایک کانفرنس میں، میں گیا تھا۔۔۔۔تو وہاں مجھے ملے تھے وہ ایک بزنس مین business man تھے۔
قارئین کرام! جو لوگ اللہ کے لیے اپنے آپ کو خالص کر دیتے ہیں، تو اللہ کریم اسی طرح اپنے بندوں کے دلوں میں ان کے مشن کے لیے تڑپ ڈال دیتا ہے، اللہ کریم حضور ضیاء الامت رحمۃ اللہ علیہ کے مشن کو دن دگنی رات چگنی ترقی نصیب فرمائے، اور حضور جانشین ضیاءالامت حضرت قبلہ پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب(سجادہ نشین آستانہ عالیہ بھیرہ شریف) کی ذات گرامی سے زیادہ سے زیادہ امت مسلمہ کو مستفید ہونے کی توفیق نصیب فرمائے، اللہ کریم آپ کو عمرِ خضری نصیب فرمائے، اور آپ کا سایہ ہمارے سر پر سلامت رہے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم
اعلیٰحضرت اور ضیاءالامت میں ذھنی قربتیں اور فکری مماثلت
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ اولاد صلبی ہو یا روحانی بہرحال بہت عزیز ہوتی ہے انسان اس کے روشن مستقبل کا شدت سے خواست گار ہوتا ہے اور اس کی صبح فردا میں رنگ بھرنے کیلئے بہتر سے بہتر انتظام کرتا ہے بچے کی تعمیر شخصیت میں والدین کی افتاد طبع،قلبی لگاؤ اور ذہنی رجحانات بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں ذی شعور حضرات بچے کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوئے ہمیشہ اچھے سے اچھے ادارے اور قابل سے قابل استاد کا انتظام کرتے ہیں اس لحاظ سے جب ہم آستانہ عالیہ حضرت امیر السالکین پہ تیار ہونے والی عبقری شخصیت فرد فرید،مفکر اسلام،مفسر قرآن،نباض عصر،ضیاء الامت حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آپ کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے حضور غازی اسلام پیر محمد شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا اس مقصد کے لیے وقت کے جید ترین علماء کا انتخاب آپ کی مردم شناسی کی بہت بڑی دلیل ہے۔جب حضور ضیاء الامت رحمۃ اللہ علیہ درس نظامی مکمل کر چکے تو آپ کے والد گرامی نے دورہ حدیث شریف کے لیے جس عظیم محدث کا انتخاب فرمایا وہ اعلیٰحضرت فاضل بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کے مقتدر خلیفہ مجاز،علم و عرفان کے بحر زخار،صدرالافاضل،حضرت سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔
آپ کی فراغت کے وقت حضرت صدرالافاضل نے ارشاد فرمایا کہ آج میں مطمئن ہوں کہ میرے پاس حدیث شریف کی جو امانت تھی وہ میں نے موزوں ترین شخصیت تک پہنچا دی ہے شریعت،طریقت اور معرفت الہی کا وہ فیضان جو اعلیٰحضرت فاضل بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کے سینۂ مبارک سے آپ کو عطا ہوا تھا وہ آپ نے حضرت ضیاء الامت کے سینۂ بے کینہ میں انڈیل دیا آج حضرت الامت رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی سے اکتساب نور کرنے والے تمام علماء حضرت صدرالافاضل کے واسطہ سے فیضان اعلی حضرت کے امین ہیں۔
اعلیٰحضرت کی ذات گرامی سے ذہنی قربت اور فکری یکسانیت کی دوسری دلیل یہ ہے کہ جب حضرت علامہ مولانا عبدالکریم چشتی المعروف محدث ابدالوی رحمۃ اللہ علیہ نے درسیات مکمل کیں تو وہ اپنے مرشد گرامی حضرت غازیٔ اسلام پیر محمد شاہ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی حضور دورہ حدیث شریف کے لیے کس بزرگ کے پاس جاؤں آپ عمرہ کے لئے تیار تھے فرمایا واپسی پر بتائیں گے واپس تشریف لائے تو فرمایا مدینہ طیبہ سے یہ فقیر تمہارے لیے استاد محترم کے انتخاب کا تحفہ لایا ہے شہر خوباں میں میری ملاقات ایک عالم ربانی سے ہوئی ہے وہ حضرت مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد اور خلیفہ ہیں یہاں پاکستان میں لائلپور میں ہوتے ہیں۔
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ ناز میں میں نے جب بھی انہیں دیکھا ہے ادب و نیاز میں ڈوبے ہوئے دیکھا ہے ان کا اسم گرامی مولانا سردار احمد صاحب ہے آپ ان کے پاس جائیں انہیں میرا بتانا انشاءاللہ ضرور باریابی فرمائیں گے۔
اسی نظریاتی ہم آہنگی اور فکری یکسانیت کی وجہ سے حضرت ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ نے دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف کی مقاصد تاسیس والی لوح حجری کے اوپر یہ کلمات واضع الفاظ میں لکھوائے تھے کہ اس دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف کا پرنسپل اور آستانہ عالیہ حضرت امیر السالکین کا سجادہ نشین عقائد اہل سنت و جماعت کا پابند ہوگا جس کی ترجمانی حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے۔
اعلیٰحضرت فاضل بریلوی رحمتہ اللہ علیہ نے جو 10 نکاتی تعلیمی ایجنڈا اہلسنت کی زبوں حالی کو دور کرنے کے لئے،معاشرے میں اپنی مضبوط حیثیت منوانے کے لئے اور عصری چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے پیش فرمایا تھا اس ایجنڈے کا مطالعہ کرنے کے بعد جب کوئی اس کی عملی اور پریکٹیکل صورت دیکھنے کے لیے جستجو کرتا ہے تو اس کی نظر حضور ضیاء الامت رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ذات گرامی پر ہی جا کر ٹھہرتی ہے۔
ان کا پیش کردہ دس نکاتی ایجنڈا حسب ذیل ہے۔
1️⃣عظیم الشان مدارس کھولے جائیں،باقاعدہ تعلیمیں ہوں۔
2️⃣طلبہ کو وظائف ملیں کہ خواہی نہ خواہی گرویدہ ہوں۔
3️⃣مدرسین کو بیش قرار تنخواہیں ان کی کارکردگی پر دی جائیں۔
4️⃣طبائع طلبہ کی جانچ ہو جو جس کام کے زیادہ مناسب دیکھا جائے معقول وظیفہ دے کر اس میں لگایا جائے۔
5️⃣جو طلبہ تیار ہوتے جائیں تنخواہیں دیکر ملک میں پھیلائے جائیں کہ وہ اشاعت دین و مذہب کریں۔
6️⃣حمایت مذہب و ردبد مذھباں میں مفید کتب و رسائل مصنفوں کو نذرانے دے کر تصنیف کرائے جائیں۔
7️⃣تصنیف شدہ اور نو تصنیف رسائل عمدہ اور خوش خط چھاپ کر ملک میں مفت تقسیم کیے جائیں۔
8️⃣شہروں شہروں آپکے سفیر نگران رہیں جہاں جس قسم کی حاجت ہو آپ کو اطلاع دیں۔
9️⃣جو ہم میں قابل کار موجود اور اپنی معاش میں مشغول ہیں وظائف مقرر کرکے فارغ البال بنائے جائیں اور جس کام میں انہیں مہارت ہو لگائے جائیں۔
🔟آپ کے مذہبی اخبار شائع ہوں اور وقتاً فوقتاً ہر قسم کے حمایت مذہب میں مضامین تمام ملک میں بقیمت و بلا قیمت روزانہ یا کم سے کم ہفتہ وار پہنچاتے رہیں۔
حدیث کا ارشاد ہے کہ آخر زمانہ میں دین کا کام بھی درہم و دینار سے چلے گا اور کیوں نہ صادق ہو کہ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہے۔
یقینا یہ تعلیمی پروگرام اس دور کا شدید تقاضا تھا کیونکہ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد تقریباً
👈ایک لاکھ علماء شہید کر دیئے گئے۔
👈ہزاروں کی تعداد میں علماء کو پار دریائے شور کی سزائیں دی گئیں۔
👈اُن کی لائبریری پر قبضہ کرلیا گیا۔
👈مدارس کے اوقاف برباد کر دیئے گئے۔
اس خونچکاں ماحول میں علم ہی ایک ایسی پاورفل چیز تھی جو زوال کی دلدل میں پھنسی ہوئی قوم کو عروج آشنا کر سکتی تھی
یہ 10 نکاتی پروگرام دراصل ملت بیضا کی بیداری کا خواب تھا،جس کی عملی تعبیر کے لیے جن علماء و مشائخ نے انفرادی یا اجتماعی کوشش کی
سب قابل تحسین ہیں۔لیکن اس میدان میں جو کام حضور ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اور یہ فقط دعوی نہیں ایک روشن حقیقت ہے۔
حضور ضیاء الامت رحمۃ اللہ علیہ کے سینے سے نکلنے والا نور اس وقت عالمگیر حیثیت اختیار کر چکا ہے قطب شمالی سے لےکر قطب جنوبی تک کون سا وہ خطۂ زمین ہے جہاں حضورضیاءالامت کے شاگرد کام نہیں کر رہے۔
مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ اس وقت پاکستان کی تمام یونیورسٹیز میں بھیرہ شریف کے علماء تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ کالجز میں،اسکولز میں،دینی مدارس میں علمائے بھیرہ خدمت دین متین اور خدمت علم کا فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ عسا کر پاکستان میں سینکڑوں علماء بطور خطیب اور نائب خطیب کام کر رہے ہیں،آزاد کشمیر میں تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ علماء کا ایک معتدبہ حصہ بطور تحصیل قاضی اور ضلع قاضی تعینات ہے،بعض احباب مقابلہ کے امتحان پاس کرکے اعلی انتظامی عہدوں پر بھی فائز ہیں۔
غوثیہ گرلز کالج سے فراغت پانے والی عالمات جہاں اپنے گھروں میں دین کے چراغ جلائے ہوئے ہیں وہاں ساتھ ہی ساتھ گورنمنٹ سیکٹر کے تعلیمی سسٹم میں بھی اپنا فعال ترین کردار ادا کر رہی ہیں ان تمام علماء وعالمات کی پہلی ترجیح علم کے ساتھ ساتھ معاشرہ کو عقیدہ کی صحت اور عمل کی پختگی کا تحفہ دینا ہے۔
حضور ضیاالامت کے کاروان علم کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شخصیت پرستی نہیں سکھائی جاتی بلکہ اسلام کے آفاقی پیغام سے نسل نو کو روشناس کرایا جاتا ہے انہیں فلاں شخصیت زندہ باد کے نعرے نہیں سکھائے جاتے بلکہ انہیں
الاسلام زندہ باد
کا سبق پکوایا جاتا ہے۔
حضور سیدی و مرشدی حضرت قبلہ پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب مدظلہ العالی کی قیادت و سیادت میں یہ کاروانِ شعور پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہے۔ مستقبل قریب میں اس تحریک نور کے اثرات آفتاب آمد دلیل آفتاب کے طور پر نمایاں ہوں گے انشاءاللہ
آفاق میں پھیلے گی کب تک نہ مہک تیری
گھر گھر لیے پھرتی ہے پیغام صبا تیرا
اور بقول کسے۔۔۔۔
بجتا ہے آج علم کا جو ساز دوستو
وہ بھی ہے اسی جرس کی آواز دوستو
جذبۂ اخلاص و للہیت:
بندہ مومن کی سب سے قیمتی متاع جذبۂ اخلاص و للہیت ہے اگر یہ جوھر نصیب نہ ہو تو بڑی سے بڑی قربانی رائیگاں چلی جاتی ہے۔
اعلیٰحضرت بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضور ضیاء الامت رحمۃ اللہ علیہ ہر دو شخصیات خالص سونے کی طرح صاحب اخلاص تھیں ان کے روشن کردار کی چند جھلکیاں پیش خدمت ہیں۔
اعلی حضرت کے ایک شاگرد سید حمید الرحمن نے یکم ذولحج 1339ء کو بنگلہ دیش سے ایک خط بھیجا جس میں انہوں نے ایک مسئلہ پوچھا تھا صورت مسؤلہ کے بعد آخری سطر یہ تھی۔
ایک روپیہ بطور استاذی خدمت کے روانہ کیا جاتا ہے۔
جواب میں لکھتے ہیں جواب مسئلہ حاضر ہے۔
الحمدللہ کہ آپ کا روپیہ نہ آیا اگر آتا اور لاکھ روپے بھی ہوتے بعونہ تعالی واپس کیے جاتے۔یہاں بحمدہ تعالیٰ نہ رشوت لی جاتی ہےاور نہ فتوی پر اجرت
آئیے حضور ضیاء الامت رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں چلتے ہیں۔یہ ہستی دیکھئے اخلاص و للہیت کے کس مقام پر فائز تھی۔
👈دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ کی 1957 میں نشاۃثانیہ فرمائی۔
👈تدریسی خدمات بھی سرانجام دیں اور تعمیری کام میں بنفس نفیس گارا اینٹیں اٹھاتے رہے۔
👈استفتاء بھی تحریر فرماتے رہے اور سائلین کے جوابات بھی ارشاد فرماتے رہے۔
👈دارالعلوم کے جملہ اساتذہ اور طلبہ کے اخراجات کا انتظام بھی فرماتے رہے۔
👈محلہ سے روٹی مانگنے کا تصور آپ نے ہی ختم فرمایا تھا۔
آپ فرماتے کہ اس سے عالم دین کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔
👈ابتداءً تو آپ نے ختمات قرآنی کے اوپر بھی اس لیے پابندی عائد کر رکھی تھی کہ ہمارے بچے روٹی کیلئے کسی اور کے دروازے کو نہ دیکھیں۔
آپ اس ادارہ کے مؤسس ثانی بھی تھے،مدرس بھی تھے،منتظم بھی تھے،اس کے مفتی بھی تھے،اس سب کچھ کے باوجود تنخواہ لینا تو بہت دور کی بات ہے،آپ نے ساری زندگی ادارے کا نمک تک استعمال نہیں کیا
اور پھر جب یہ ڈیوٹیاں اپنے سجادہ نشین صاحب کے سپرد فرمائیں تو ارشاد فرمایا:
بیٹا دارالعلوم کے معاملے میں اس فقیر نے ہمیشہ روزہ رکھا ہے تم بھی اسی جادۂ محبت پہ قائم رہنا۔اللہ کریم تمہیں لوگوں کے سامنے رسوا نہیں ہونے دے گا۔
حضور ضیاءالامت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی حیات مبارکہ کے صرف چند روز ہی اخلاص کے ساتھ نہیں گزارے بلکہ آپ کی زندگی کا لمحہ لمحہ للہیت سے معمور ہے۔
👈آپ رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئر مین رہے۔
👈پاکستان سپریم کورٹ کے شریعت اپیلنٹ بینچ میں عدالتی خدمات سر انجام دیں اور ان سب چیزوں کا اجر اپنے رب کریم کی نگاہ محبت پہ چھوڑے رکھا۔
آپ اپنے تلامذہ کو بھی کثرت سے اس آیت کے مفاھیم سمجھاتے۔اور بار بار سمجھاتے۔
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔
اے میرے محبوب آپ فرما دیجئے۔۔۔بے شک میری نماز،میری قربانی،میری زندگی کا لمحہ لمحہ اور میری موت اللہ کے لئے ہے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔
ایک دفعہ آپ بیرون ملک کسی سرکاری دورے سے واپس تشریف لائے تو طلباء نے عرض کی حضور چھوٹے چھوٹے لوگ جب باہر دورے پر جاتے ہیں تو اخباروں میں سرخیاں چھپتی ہیں آپ اتنے اہم ملکی مفادات کے لئے تشریف لے جاتے ہیں نہ کوئی جانے کی خبر نہ آنے کا پتہ۔۔۔۔!!!
آپ نے ارشاد فرمایا:
میرے بچو! میں اس خبر کا ہرگز طالب نہیں جو آج تو اخبار کی زینت ہو اور کل ردی کی ٹوکری میں پڑی ہو میں تو اس خبر کا طالب ہوں کہ کل جب اس فقیر کی آنکھیں بند ہوں تو میرا رب فرمائے کہ میں کرم شاہ سے راضی ہوں۔
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی میں