حضرت قبلہ پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب مدظلہ العالی سجادہ نشین آستانہ عالیہ بھیرہ شریف 25 رجب المرجب 1369ء بمطابق 9 مئی 1950 میں حضرت ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ کے کاشانہ معرفت میں رونق افروز ہوئے، حضرت ضیاء الامت کی شفقتیں تو میسر تھیں،
اس سے بڑھ کر آپ کی روحانی توجھات نصیب تھیں، آپکے اسم مبارک محمد امین الحسنات سے ہی آپ کی قلبی خواھشات کا تقدس جھلک رہا ہے۔
تعلیم کا آغاز
آپ نے تعلیم کا آغاز حفظ قرآن مجید سے کیا، بعد ازاں ایک سال میں پرائمری کی تمام کلاسز کی تیاری کی، اور پھر صرف تین ماہ میں مڈل کا امتحان پاس کیا، پھر آپ گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول بھیرہ میں داخل ہوئے، تو دو سالوں میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 900 میں سے 700 نمبر حاصل کرکے سکالر شپ حاصل کی، 6 سال میں دارالعلوم کا نصاب مکمل مکمل کیا، پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے بی۔اے پاس کیا، دورہ حدیث شریف جامعہ قمر الاسلام سلیمانیہ کراچی سے مولانا منتخب الحق قادری سے پڑھا، اس دوران آپ کو حضرت قبلہ سید عظمت علی شاہ ھمدانی جو آپکے والد گرامی کے شاگرد تھے، کی خصوصی شفقتیں اور محبتیں حاصل رہیں، آخر میں آپ جامعہ ام القری مکہ میں تشریف لے گئے اور تخصص فی الفقہ اور اسلامک لاء کی ڈگریاں حاصل کیں، آپکا سارا تعلیمی دورانیہ بتاتا ہے کہ اللہ کریم نے آپ کو بے پناہ ذھنی لیاقت سے نواز رکھا تھا
آپکی عمر ابھی بہت چھوٹی سی تھی اور آپکے والد بزرگوار جامعہ الازہر مصر میں علم کے یواقیت و جواہر سمیٹ رہے تھے، تو حضرت ضیاء الامت کی ہمشیرہ نے خط لکھا کہ امین الحسنات کہتا ہے میرے لیے کار بھیجیں، تو آپ نے جوابی خط میں ارشاد فرمایا کہ بہن اپنے بھتیجوں کو سمجھایا کریں کہ آپ اپنے رب سے اسکی رضا اور اسکے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی محبت مانگا کریں، کاریں وغیرہ سب بیکار چیزیں ہیں، اگر اسکی رضا حاصل ہو جائے تو زمین و آسمان اپنے ہو جاتے ہیں، کاریں ہوں اور اسکی رضا نہ ہو تو کیا حاصل؟؟؟
مزید ارشاد فرماتے ہیں کہ بہن تم امین کو سمجھایا کرو کہ ٹھیکریاں اکٹھی نہ کیا کرو، ٹھیکریوں کو چن چن کر ڈھیر بھی لگا دو تو انکی کوئی قدر و قیمت نہیں اپنے رب کی محبت کا موتی تلاش کیا کرو، اگر مل گیا تو گویا سب کچھ مل گیا۔
آپکی عمر ابھی بہت چھوٹی سی تھی اور آپکے والد بزرگوار جامعہ الازہر مصر میں علم کے یواقیت و جواہر سمیٹ رہے تھے، تو حضرت ضیاء الامت کی ہمشیرہ نے خط لکھا کہ امین الحسنات کہتا ہے میرے لیے کار بھیجیں، تو آپ نے جوابی خط میں ارشاد فرمایا کہ بہن اپنے بھتیجوں کو سمجھایا کریں کہ آپ اپنے رب سے اسکی رضا اور اسکے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی محبت مانگا کریں، کاریں وغیرہ سب بیکار چیزیں ہیں، اگر اسکی رضا حاصل ہو جائے تو زمین و آسمان اپنے ہو جاتے ہیں، کاریں ہوں اور اسکی رضا نہ ہو تو کیا حاصل؟؟؟
مزید ارشاد فرماتے ہیں کہ بہن تم امین کو سمجھایا کرو کہ ٹھیکریاں اکٹھی نہ کیا کرو، ٹھیکریوں کو چن چن کر ڈھیر بھی لگا دو تو انکی کوئی قدر و قیمت نہیں اپنے رب کی محبت کا موتی تلاش کیا کرو، اگر مل گیا تو گویا سب کچھ مل گیا۔
بیج بھی کمال کا تھا اور آپکی کِشت دل بھی کمال صلاحیتوں کی مالک تھی، والد گرامی کی یہ نصیحت خوشبو بن کے مشام جاں میں ایسے اتری کہ بیٹے کی ہر ہر ادا ہی محبت اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی عکاس و ترجمان بن گئی
پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب کا پیغام۔۔۔مشائخ عظام کے نام
,,برق شرر بے تاب ہے آشیاں جلانے کو
کہتے ہیں کہ کسی بھولے بھالے انسان کو کہیں راستے سے قیمتی یواقیت و جواہر کی ایک تھیلی مل گئی، اس نے اٹھائی کھولی تو دیکھ کر خوش ہو گیا، کہ چلو فصل بھی پکی ہوئی ہے، چڑیاں اڑانے کے لیے روزانہ ان گھڑے پتھر اور کنکر غلیل میں پھینکنا پڑتے ہیں، آج تو بہت آسانی ہو گی، کہ کیسے نرم ملائم پتھر ملے، غلیل میں رکھ کر پھینکنے کا مزہ بھی آئے گا، چنانچہ اس نے تھیلی ہاتھ میں پکڑی، غلیل پہلے ہی پاس موجود تھی، فصل کے کنارے ایک اونچی جگہ پر بیٹھ گیا اور غلیل چلانے لگا، چڑیاں اڑانے لگا، یہاں تک کہ اس نے تقریباً ساری تھیلی اس عمل میں اڑا دی، صرف چند پتھر رہ گئے تو اسکو شہر میں ایک کام یاد آگیا، وہ اسی طرح ان چند موتیوں کو ہاتھ میں رکھے شہر پہنچا، شہر کے داخلی دروازے کے ساتھ ہی جوہریوں کی دکانیں تھیں، ایک جوہری کی نظر کسان کے ہاتھ میں موجود موتی پر پڑی، تو وہ دوڑ کے آیا اور کہنے لگا، میں تم سے یہ موتی 60 ہزار میں خریدنا چاہتا ہوں، اتنے میں دوسرا جوہری بھی آ گیا، اس نے کہا، میں 80 ہزار دینے کے لیے تیار ہوں، تیسرا آیا تو اس نے اس سے بھی زیادہ ریٹ بتایا تو کسان بیٹھ کے رونے لگا، انہوں نے پوچھا بھائی، اس میں رونے والی کونسی بات ہے، اگر سودا نہیں منظور نہ دو لیکن رونے کا کیا مطلب؟؟؟
اس نے کہا تم ایک ایک موتی کی اتنی بھاری قیمت دینے پر آمادہ ہو، مجھے تو ان قیمتی موتیوں سے بھری ہوئی پوری تھیلی ملی تھی، ہائے افسوس کہ میں ان کی قدر نہ کر سکا، اور قیمتی اثاثہ ضائع کر بیٹھا۔
اسی طرح وقت بھی بہت قیمتی چیز ہے، گزر جائے تو دنیا کی ساری دولت دے کر بھی ایک لمحہ لٹایا نہیں جا سکتا، اس کی گھڑیاں🕰️ یواقیت و جواہر سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتی ہیں۔
وقت کی پکار کو سنجیدگی سے سننے اور مناسب حکمت عملی تشکیل دینے کا بھی ایک وقت ہوتا ہے۔
وقت کے تساھل و تکاسل سے گذر جانے کے بعد آنے والی نسلیں کف افسوس ملتی رہ جاتی ہیں، لیکن اسوقت غصہ سے دانت پیسنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہوتا۔
جب سے ایف-اے-ٹی-ایف کی کوکھ سے قانون وقف املاک نے کسی یہودی یا نصرانی کے استدراج کے نتیجے میں اچانک جنم لیا ہے، اسی وقت سے جہاں بین لوگ گہری تشویش کا شکار ہیں، اور اس بل کے مفاسد اور مضرات کی وجہ سے اسکی منسوخی چاہتے ہیں
نباض عصر، ضیاء الامت، حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے فرزند ارجمند، آپکی علمی، فکری، اور روحانی میراث کے کامل وارث، عالمی حالات پر، عقابی نظر رکھنے والی، بہت گہرے شعور کی حامل شخصیت حضرت قبلہ پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب مدظلہ العالی بھی ان ارباب بصیرت میں سے ایک منفرد شخصیت ہیں، جو پہلے دن سے انتہائی متانت، سنجیدگی، جرأت اور وقار کے ساتھ اس بل کو ختم کروانے کے لیے کوشاں ہیں، آپ نے پہلے اسلام آباد میں دو بھر پور اجلاس بلائے، اور اب تیسرے اجلاس کا اہتمام عروس البلاد کراچی میں کیا گیا، آپ مشائخ کو یہی باور کروانا چاہتے ہیں کہ ہم اس بھولے بھالے کسان کی طرح نہ بنیں، جس نے قیمتی موتیوں کی تھیلی غلیل چلانے میں ضائع کر دی، وقت کی یہ گھڑیاں ہمارے لیے، اس یواقیت و جواہر کی تھیلی سے زیادہ قیمتی ہیں، اگر اس قانون نے عملی نفاذ کی ہلکی سی انگڑائی بھی لی تو علماء و مشائخ اپنے بزرگوں کی صدیوں کی میراث سے محروم ہو جائیں گے، بلکہ بیگانے کر دیئے جائیں گے