حضرت صاحبزادہ محمد نعیم الدین شاہ صاحب حفظہ اللہ تعالی
ولی عہد: آستانہ عالیہ حضرت امیر السالکین بھیرہ شریف*
خانقاہ معلیٰ بھیرہ شریف کا یہ طُرّہ امتیاز ہے کہ حضرت امیر السالکین رحمۃ اللہ علیہ سے لیکر حضور جانشین ضیاءالامت حضرت قبلہ پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب مدظلہ العالی تک تمام سجادہ نشین حضرات نے اپنے اپنے دور ہمایوں میں دین و ملت کی خدمات کے حوالے سے جاندار اور روشن ریکارڈ قائم کئے ہیں وہاں ساتھ ہی ساتھ اللّٰہ کریم کی عطا کردہ نورانی بصیرت سے بہت ذمہ داری کے ساتھ مستقبل کی پیش بندی بھی فرمائی ہے تاکہ علم و عرفان کا یہ کارواں قیادت سے محروم نہ رہے بلکہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ رضائے الہی کی منزل کی طرف رواں دواں رہے۔
اسی چیز کے پیش نظر حضور جانشین ضیاءالامت مدظلہ العالی اپنے ولی عہد حضرت صاحبزادہ محمد نعیم الدین شاہ صاحب حفظ اللہ کو اپنی خصوصی تربیتی توجھات سے نواز رہے ہیں۔اللہ کریم نے حضور غریب نواز مدظلہ العالی کو چار فرزندان ارجمند سے نوازا ہے جن کے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں۔
1: صاحبزادہ محمد نعیم الدین شاہ صاحب
2:صاحبزادہ محمد معین الدین شاہ صاحب
3: صاحبزادہ محمد فرید الدین شاہ صاحب
4:صاحبزادہ محمد رجب طیب اردگان شاہ صاحب
صاحبزادہ محمد نعیم الدین شاہ صاحب آپ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں جو آستانہ عالیہ حضرت امیر السالکین کے ولی عہد ہیں۔
آپ کی ولادت 15 جولائی 1996 کو بھیرہ شریف میں ہوئی۔
آپکی صورت میں جب اللہ کریم نے حضور ضیاءالامت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اپنی دعاؤں کا ماحاصل عطا فرمایا تو پورے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
حضور ضیاء الامت تشریف لائے بہت پیار سے اپنے پوتے کو اپنے ہاتھوں پر اٹھایا تو آنکھوں میں شکرانے کے آنسو تھے اور ساتھ فرما رہے تھے کہ
آج الحمدللہ اللہ کریم نے کرم شاہ کے باغ کو رنگ لگا دیا ہے
خوبصورتی اور چہرے کا جمال تو اس خاندان کی میراث ہے۔حضرت صاحبزادہ صاحب کو اللہ کریم نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے رخ والضحی کی خیرات عطا فرما رکھی ہے۔ اور تعمیر سیرت کے لئے آپ کے والدین کی پر خلوص مساعی جاری ہیں۔
والدین کا حسن تربیت
عربی والے کہتے ہیں
کل اناء یترشح بما فیہ
ہر برتن سے وہی کچھ نکلتا ہے ہے جو اس میں موجود ہوا کرتا ہے۔آپ کے والد گرامی حضور ضیاء الامت رحمۃ اللہ علیہ کی آغوش ولایت میں پلے بڑھے تھے اور والدہ ماجدہ حضرت قبلہ سید نذیر حسین شاہ صاحب خلیفہ مجاز آستانہ عالیہ بھیرہ شریف کی دختر نیک اختر تھی آپ اپنے والد گرامی کے حسنِ ادب و عمل سے پوری طرح فیض یافتہ تھیں آپ نے اپنی اولاد کے دل میں حضور ضیاءالامت رحمۃ اللہ علیہ کے پورے خاندان کی محبت ڈال دی۔صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں میری والدہ ماجدہ چھوٹی عمر میں ہمیں پکڑ پکڑ کے خاندان کے مختلف بزرگ خواتین و حضرات کے پاس بھیجتیں جاؤ فلان سے ملو۔۔۔۔جاؤ فلاں سے مل کے آؤ والدہ ماجدہ کو ہماری تربیت بہت عزیز تھی اسلیے ہماری غلطیوں پر ہماری تادیب بھی فرماتیں
حسن تربیت کے دو واقعات
صاحبزادہ صاحب بیان فرماتے ہیں کہ میری 9,10 سال عمر تھی لارنس کالج میں پڑھتا تھا۔وہاں والد گرامی کا معمول مبارک یہ تھا کہ نئے تعلیمی سال کے آغاز میں ایک ہی دفعہ کتابیں،سٹیشنری کا سامان اور یونیفارم خرید دیتے۔
ایک دفعہ اسی مقصد کے لئے آپ نے مجھے ساتھ لیا مری مال روڈ پہ مختلف دکانوں سے اپنا مطلوبہ سامان خرید رہے تھے آگے ایک ڈرائی فروٹ کی دکان آگئی آپ فروٹ کا ریٹ وغیرہ پوچھنے لگے تو میں نے چپکے سے ایک بادام اٹھا کر جیب میں ڈال لیا۔روڈ پر چلتے چلتے ہمیں تقریبا 20,25 منٹ ہو چکے تھے یعنی ہم اس شاپ سے اتنے دور ہوچکے تو میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور بادام نکال کر اپنی ہتھیلی پہ رکھا آپ نے دیکھا تو پوچھا کہ کیا آپ نے اسکے پیسے دیے ہیں؟؟؟؟
میں نے عرض کی نہیں۔۔۔۔یہ سن کر آپ بہت مغموم ہوئے اور آپ نے فرمایا۔۔۔۔بیٹا ہم چور نہیں ہیں،ہم ڈاکو نہیں ہیں،ہم امانت دار لوگوں کی اولاد ہیں،آئندہ کبھی یہ حرکت نہ کرنا پھر آپ پیدل واپس چل پڑے کافی فاصلہ تھا واپس آتے آتے آپ کی ٹانگوں میں درد بھی ہو گیا لیکن آپ اس ڈرائی فروٹ والی شاپ پہ پہنچے اور اسے کہا کہ ہم معافی مانگنے کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔۔۔۔۔بچے نے آپ سے پوچھے بغیر اور پیسے دیے بغیر یہ ایک بادام اٹھا لیا تھا۔۔۔۔یہ ہم واپس کرنے آئے ہیں آپ مہربانی کرکے ہمیں معاف کر دینا اس نے ہزار بار کہا کہ کوئی بات نہیں لیکن آپ نے فرمایا نہیں بچوں کی شخصی تعمیر میں یہ چیزیں بہت گہرے اثرات رکھتی ہیں اس لیے آپ ہمیں معاف کر دیں آپکا بہت بہت شکریہ۔
2:میرے حفظ کے دور کا واقعہ ہے کہ والدہ صاحبہ کے ساتھ سرگودھا سے واپس آ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔رات کا اندھیرا پھیل چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔روڈ پر ڈاکوؤں نے ناکا لگایا ہوا تھا اور ٹرکوں اور گاڑیوں کو لوٹ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔جیسے ہی ہماری گاڑی ان کے قریب پہنچی۔۔۔۔۔۔۔۔تو دو ڈاکو منہ پہ نقاب چڑھائے۔۔۔۔۔۔اسلحہ اٹھائے ہماری طرف دوڑے۔۔۔۔۔۔۔۔بہت پریشانی ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔محبوب ڈرائیور نے بہت تیزی کے ساتھ گاڑی پیچھے دوڑائی اور ایک لنک روڈ سے ہم وہاں سے۔۔۔۔۔۔۔اللہ کے کرم سے نکل آئے۔۔۔۔۔۔جب گھر پہنچے۔۔۔۔۔۔حضور جانشین ضیاءالامت کو ساری بپتا سنائی۔۔۔۔۔۔آپ تو فورا دربار شریف پہ چلے گئے۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔مجھے امی جان نے ارشاد فرمایا۔۔۔۔۔۔۔نعیم شاہ۔۔۔۔اٹھو۔۔۔۔وضو کرو۔۔۔اور دو نفل شکرانے کے ادا کرو۔۔۔۔۔۔میں نے ایک لمحے کے لیے اس بات سے بیزاری کا اظہار کیا لیکن پھر مجھے میرے ضمیر نے ملامت کی کہ اللہ نے تمہیں کتنے خطرناک ترین حالات سے نکالا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اور تمہیں دو سجدوں کی توفیق نصیب نہیں ہو رہی۔۔۔۔۔اٹھ اور اپنے پروردگار کی بارگاہ میں ہدیہ سپاس پیش کر۔۔۔۔۔۔میں اگرچہ ابھی نا بالغ بچہ تھا لیکن میری ماں نے ان دو نفلوں کی تلقین میں مجھے بہت کچھ عطا کردیا۔
لارنس کالج کی کچھ یادیں:
لارنس کالج میں اگرچہ ماڈرن سوسائٹی کے بچے پڑھتے تھے اور ان کا لائف سٹائل بھی وہی تھا لیکن صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں اگرچہ میری عمر چھوٹی تھی لیکن میرے والدین کے حسن تربیت سے مجھے معلوم تھا کہ میری لائن ان سب لوگوں سے جدا ہے اس لیے میں نے وہاں بھی اپنا خاندانی تشخص گم نہیں ہونے دیا۔
اپنا انداز زمانے سے جدا رکھتے ہیں
ہم تو محبوب بھی محبوب خدا رکھتے ہیں۔
دو باتیں شکر نباتیں:
فرماتے ہیں کہ ہمارے والدین نے دو باتیں ہمیں،سب،بہن بھائیوں کو اچھے طریقے سے ازبر کرائی ہوئی ہیں۔
1)سادات کا ادب
2)اساتذہ کرام کا ادب
کلاس فیلوز میں اگرچہ زیادہ تکلف نہیں ہوتا لیکن اگر کوئی سید کلاس فیلو بھی ہے۔۔۔۔۔تو میں نے ہمیشہ دل سے اس کا احترام کیا ہے الحمدللہ
یہ دل بھی حسینی ہے یہ جاں بھی حسینی ہے
الحمد کہ اپنا تو ایمان بھی حسینی ہے
نسلوں سے غلامی کا اعزاز یہ حاصل ہے
میرا باپ حسینی ہے اور ماں بھی حسینی ہے
ہمارے کالج میں اساتذہ کے ادب کی کوئی فضا نہیں تھی لیکن میں نے ہمیشہ اپنے اساتذہ کا احترام کیا ہے اسی وجہ سے میرے اساتذہ بھی میرے اوپر بہت مہربان تھے۔
اسی دور کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ ہمارے پرنسپل فاروق کیانی صاحب راؤنڈ پہ تھے میں راستے میں ان سے ملا تو میں نے احتراما ان کا ہاتھ چوم لیا ان کے لیے شاید یہ چیز بہت حیران کن تھی انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور پکڑے پکڑے مجھے اسمبلی میں لے آئے اور سب سٹاف اور طلبہ کے سامنے مسکرا کر کہنے لگے۔
He kissed my hand
کہ اس بچے نے میرا ہاتھ چوم لیا ہے
حفظ قرآن کی سعادت
لارنس کالج سے تعلیم حاصل کی اور پھر والد گرامی کے حکم سے حفظ قرآن کا سلسلہ آستانہ عالیہ امیر السالکین پہ شروع ہوا۔
قاری اللہ بخش صاحب کی کلاس میں آغاز کیا۔بعدہ علامہ پیر سید عابد حسین شاہ صاحب سے تکمیل کی جس دن آپ کا حفظ مکمل ہوا تو قبلہ حضرت پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب مدظلہ العالی کے چہرے کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ آپ کے دل کے آنگن میں خوشیوں کے کتنے کارواں خیمہ زن ہیں۔
آپ نے اس نعمت کے شکرانے کے طور پر دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کے اساتذہ کرام اور تمام طلباء عظام کی الگ الگ پُرتکلف دعوت کی۔
صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں کہ جب میں حفظ کے لئے بھیرہ شریف حاضر ہوا تو خیال تھا کہ والدین کے پاس رہیں گے اور موج کریں گے لیکن اس لحاظ سے یہ دور کچھ تلخ ہی رہا کہ والد گرامی اپنی مصروفیات کی وجہ سے وقت نہیں دے پاتے تھے اور والدہ ماجدہ میرے دوسرے بہن بھائیوں کی وجہ سے اسلام آباد رہنے پر مجبور تھیں بہرحال اس دور میں دو چیزیں حاصل ہوئیں۔۔۔۔۔۔ایک تو حفظ قرآن مجید کی دولت اور دوسرا حفظ کے اساتذہ کرام کی مجبوریاں،ان کے مسائل اور پھر ساتھ ساتھ حفظ کے طلبہ کے مسائل سمجھنے کا موقع ملا۔
حرمین شریفین حاضری
حفظ قرآن کی سعادت حاصل کرنے کے بعد حضور جانشین ضیاءالامت نے آپ کو ساتھ لیا اور عمرہ کیلئے سوئے حرم روانہ ہوگئے فرماتے ہیں جب ہم مکہ شریف پہنچے تو والد گرامی نے اس شہر مقدس کے امتیازات اور آداب تلقین فرمائے۔۔۔۔ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ کعبۃ اللہ پر جب انسان کی پہلی نظر پڑتی ہے تو اس وقت وہ جو دعا کرے اس کی قبول ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔بچپن کا دور تھا میں نے ایک چیز کے بارے میں ٹھان لی کہ جب کعبہ پر نظر پڑے گی تو وہ چیز اپنے رب سے مانگوں گا۔۔۔۔حرم شریف حاضر ہوئے اور حضور جانشین ضیاءالامت ویل چیئر پہ تھے ہمارے پیر بھائی اشفاق خان صاحب اور شعیب بٹ صاحب آپ کے ہمراہ تھے جیسے ہی میں کعبۃ اللہ کے سامنے آیا تو کعبۃ اللہ کی ہیبت کی وجہ سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ہر چیز بھول گئی بس اتنا عرض کر سکا یا اللہ جو میرے حق میں بہتر ہے وہ عطا فرما اور مجھے ہر حال میں اپنی رضا پہ خوش رکھ بزرگوں سے سنا تھا کہ شاید یہی دعا حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے والد صاحب کے سامنے اپنے رب سے مانگی تھی
مدینہ طیبہ
مدینہ طیبہ کی تو شان ہی نرالی ہے جیسے جیسے مدینہ پاک قریب آ رہا تھا والد صاحب کی طبیعت میں بھی ایک گداز اور سرور آتا جا رہا تھا سرکار دوعالم،نور مجسم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچنے والے تھے۔۔۔۔دل سینے سے نکل کر حرم کے کبوتروں کی طرح روضہ اقدس کا طواف کرنا چاہ رہے تھے بس جیسے مواجھہ شریف کے سامنے پہنچے تو والد گرامی نے مجھے پکڑ کر اپنے ساتھ ملالیا۔۔۔۔۔۔وفور عشق سے اتنا روئے کہ ہچکی بندھ گئی۔۔۔۔۔آنسوؤں کا سیلاب تھا کہ رکنے نہیں پا رہا تھا۔۔۔۔۔آپ نے وہاں خاموش زبان سے۔۔۔۔۔۔۔
بہت کچھ مانگا کیا مانگا؟
سخی جانے گدا جانے
مواجھہ شریف پہ حاضری کے بعد آپ نے فرمایا۔۔۔۔۔مسجد نبوی شریف کو دھیان سے دیکھو ہم نے بھی مسجد امیر السالکین کی تعمیر نو کرنی ہے۔۔۔۔۔۔خواہش ہے کہ اس کے اوپر بھی مسجد نبوی کی چھاپ ضرور موجود ہو۔۔۔۔۔تو میں نے ہاتھ کمر کے پیچھے بندھے ہوئے تھے اور مسجد شریف کے ستون دیکھ رہا تھا آپ نے ارشاد فرمایا۔۔۔۔۔۔بیٹے یہ ادب کی جگہ ہے یہاں کمر کے پیچھے ہاتھ باندھ کر چلنا یا کھڑے ہونا سخت بے ادبی ہے۔۔۔۔۔اس لیے یہاں کسی لمحے بھی اس کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔
ادب گاہ ہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
پھر اس کے بعد تو مدینہ طیبہ میں جتنا وقت گزرا۔۔۔۔قلب و روح کی گہرائیوں سے یہی آواز آتی رہی۔۔۔۔!!!!
کعبے کے بدرالدجی تم پہ کروڑوں درود
طیبہ کے شمس الضحیٰ تم پہ کروڑوں درود
جامعہ الکرم انگلینڈ
یہ وہ عظیم الشان ادارہ ہے جو برطانیہ کے شہر نوٹنگھم میں موجود ہے اور پورے یورپ،امریکہ اور دیگر مسلم ممالک کے طلبا کا مرجع ہے حضور ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری کے نامور شاگرد اور آپکے خلیفہ مجاز پیر زادہ امداد حسین صاحب اس کا انتظام و انصرام سنبھالے ہوئے ہیں۔
یہ ادارہ یورپ کی مخالف فضاؤں میں محبت الہی اور عشق رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا نور بانٹ رہا ہے۔
حرمین طیبین کی باادب حاضری کےبعد حضور جانشین ضیاءالامت،حضرت قبلہ پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب اپنے فرزند ارجمند کو جامعۃ الکرم انگلینڈ میں لےگئے اور وہاں داخل کروا دیا۔یہاں آپ نے او لیول تک تعلیم حاصل کی ساتھ کچھ درس نظامی کی کتابیں پڑھیں اور عربی لینگویج کورس بھی کیا۔جامعہ الکرم انگلینڈ میں داخلے کی وجوہات یہ تھیں۔
1)تاکہ آپ کو انگریزی زبان پر عبور حاصل ہوجائے۔انگریزی زبان اس وقت انٹرنیشنل لینگویج ہے ہر وہ شخص جس کے پاؤں کے نیچے زمینی فاصلے سمٹ چکے ہیں اور اس نے عالمگیر سطح پر کوئی قابل قدر کاوش سرانجام دینی ہے اس کے لئے انگلش زبان کا جاننا از بس ضروری ہے بلکہ دنیا کی دیگر زبانوں کو بھی اس کو جاننا چاہیے تاکہ وہ اپنا پیغام خیر بغیر کسی ترجمان کے دنیا کے ہر خطے میں پہنچا سکے۔
2)جامعہ الکرم میں مختلف ممالک کے بچے اور مختلف تمدن و تہذیب کے طلبہ پڑھتے ہیں ان سے مل کر ذہنی افق وسیع ہو مختلف تہذیبوں سے شناسائی ہو تاکہ کل آنے والے وقت میں دنیا کے کسی بھی ملک اور کسی بھی فورم پر آپ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں
Froebles college
او لیول تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد صاحبزادہ محمد نعیم الدین شاہ صاحب وطن واپس تشریف لائے اور ان کو ملک کے ایک انتہائی اہم تعلیمی ادارے میں داخل کروایا گیا۔۔۔۔فرماتے ہیں اس کالج میں سب ماڈرن مخلوق پڑھتی تھی میرے شعبے اور مزاج کا کوئی طالب علم نہیں تھا لیکن میں اپنے اندر کسی قسم کا احساس کمتری محسوس نہیں کرتا تھا۔جو بھی پوچھتا میں بڑے فخر کے ساتھ اپنے باپ دادا کا اسے تعارف کرواتا۔۔۔۔۔۔۔ان دنوں تعارف کروانا کچھ اس لیے بھی آسان تھا کہ والد گرامی وفاقی وزیر برائے مذہبی امور تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہوتی کہ میرے دادا سپریم کورٹ کے جسٹس،اور والد صاحب وزیر ہیں۔۔۔۔لیکن ان کی اصل شناخت یہ نہیں ان کی اصل شناخت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی خدمت ہے۔
ان دنیاوی اداروں کے اندر کمی یہ ہے کہ اساتذہ کے احترام کا فقدان ہے طلباء اساتذہ کے اوپر تنقید بہت کرتے ہیں لیکن مجھے اللہ نے ہمیشہ اس قباحت سے محفوظ رکھا ہے۔
اسی وجہ سے اساتذہ کرام میرے ساتھ بہت محبت سے پیش آتے تھے
سٹوڈنٹ کونسل کی خزانچی شپ
سٹوڈنٹ کونسل کا کام کالج میں مختلف تربیتی پروگرام کا اہتمام کرنا تھا اور اس کی فقط ممبر شپ کے حصول کے لیے بھی دو سال کا تعلیمی کیریئر درکار تھا لیکن میرے اوپر اللہ نے کرم یہ فرمایا کہ میں دو سال سے کم عرصہ میں اس کی خزانچی شپ تک پہنچ گیا جب اس کے لیے میرا انٹرویو ہوا تو دائیں بائیں کالج کا عملہ بیٹھا تھا اور میری کرسی درمیان میں تھی وہ مختلف سوال کر رہے تھے اور میں جواب دے رہا تھا انہوں نے ایک سوال کیا۔۔۔۔۔!!!
آپ کو اس سیٹ کے لیے کیوں رکھا جائے؟؟؟؟
تو میں نے کہا کہ آپ نے نوٹس بورڈ کے اوپر یہ جملہ لکھ رکھا ہے۔۔۔۔۔!!!
We don't treat our students as just students but rather as faimly
کیا یہ جملہ درست ہے؟؟؟؟
انہوں نے کہا کیوں نہیں تو میں نے کہا۔۔۔۔پھر آپ مجھے رکھ لیں۔۔۔۔۔میں نے مسکراتے ہوئے انہیں کہا کہ اگر آپ کو کوئلے کی کان میں ہیرا نظر نہیں آرہا تو یہ میرا قصور تو نہیں ہے۔
اس پر وہ لوگ ہنس پڑے اور پھر اگلے دن میری ایک میڈم اور ایک سر میرے پاس آئے۔۔۔۔۔۔اور مجھے مبارکباد دی کہ آپ کی سلیکشن ہوگئی ہے
مارکیٹنگ ڈائریکٹر
اسی کالج میں پھر آپ کو یہ عہدہ بھی سونپا گیا
Head of badminton club
آپ کو اسی کالج میں بیڈمنٹن کلب کا ہیڈ نامزد کیا گیا۔
حضور ضیاالامت فرمایا کرتے تھے کہ طالب علم کو تین کاموں میں سے کسی ایک کام میں مشغول ہونا چاہیے۔
1)پڑھے لکھے
2)بحالی صحت کے لیے کھیلے 3)جسمانی تازگی کے ساتھ کام کرنے کے لیے سوئے.
انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد
پھر آپ اسلامک یونیورسٹی میں داخل ہوئے اس دوران والد صاحب کی طبیعت سخت خراب ہوگئی آپ نے فرمایا بیٹا میرے قریب وقت گزارو تاکہ میں آپ کی ذاتی طور پر کچھ تربیت کر سکوں تو ایک سال کے بعد آپ بھیرہ شریف منتقل ہوگئے آج کل آپ والد گرامی کے زیر سایہ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف کے سینئر اساتذہ کرام سے حضور ضیاءالامت حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللّٰہ علیہ کا سیٹ کردہ سلیبس پڑھ رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ساتھ
University of ESSEX England
سے ایل ایل بی بھی کر رہے ہیں
عملی زندگی کا آغاز
آپ نے چونکہ مستقبل میں فروغ علم اور تبلیغ دین کا کام کرنا ہے اس لیے والد گرامی نے آپ کو اس مقصد کے لئے میدان عمل میں اتار دیا ہے۔
گزشتہ 3سالوں سے ماہانہ شب کرم میں مرحلہ وار ضیاءالنبی کا مطالعہ پیش کر رہے ہیں آپ کے حکیم و دانا والد گرامی کا یہ فیصلہ بھی کتنا حسین ہے۔۔۔۔۔۔کہ۔۔۔۔۔۔ایک کام سے بیک وقت کئی فوائد حاصل ہورہے ہیں۔
1)بیٹا ذہنی،شعوری،علمی اور فکری طور پر بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو جائے اور اس کے لیے ضیاء النبی شریف کا انتخاب کر کے گویا آپ نے اپنے لخت جگر کا ہاتھ حضور ضیاءالامت کے ہاتھ میں دے دیا ہے تاکہ اپنے دادا حضور کی انگلی پکڑ کر بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں باریاب ہو جائیں۔
2)بھانت بھانت کے مختلف گرم و سرد مفکرین کی فکری یلغار سے بیٹے کو بچا لیا ہے.
3)دربارعالیہ کے متعلقین آپ سے مانوس ہو رہے ہیں اور ان کے لئے آنے والے وقت میں آپ نے امید کا چراغ روشن کر دیا ہے۔
4)صاحبزادہ صاحب کو مسلسل مشق کروا کےان کی زبان کی گرہ کھولی جارہی ہے اور ممبر پر گفتگو کرنے کی ہچکچاہٹ ختم کی جا رہی ہے۔
5)ایک مستند ترین ماخذ کے مطالعہ سے آپ کی علمی و فکری بنیادیں مستحکم کی جارہی ہیں۔
6)صاحبزادہ صاحب کو شعوری کوشش سے ہر لحظہ ان کی ڈیوٹیاں یاد کروائی جا رہی ہیں۔
7)آپ اپنے ولی عہد کی تقریر کے واسطہ سے لوگوں کو حضور ضیاءالامت تک پہنچا رہے ہیں۔اور ضیاءالامت کی کتاب کے وسیلہ سے بارگاہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا رہے ہیں۔
تبلیغی دورہ جات
اب آپ اپنے والد گرامی کے حکم سے مختلف علاقوں میں فروغ دینِ متین کے لیے تشریف لے جاتے ہیں پچھلے دنوں آپ نے ضلع سرگودھا کا کامیاب ترین تبلیغی دورہ فرما کر اپنے آباؤ اجداد کی حسین ترین روایات کو ایک دفعہ پھر تازہ کر دیا ہے دربار عالیہ سے متعلقین تمام احباب اللہ کریم کی اس عنایت پر سراپا سپاس ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ الحمدللہ
سجدۂ شکر کا مقام
آج کے دور کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ بڑے بڑے علماء و مشائخ کی اولادیں ایک تو علم کی دولت سے محروم ہیں اور دوسرے نمبر پر اپنی خاندانی وجاہت پر سخت تکبر کا شکار ہیں اور ان دونوں چیزوں نے بہت سارے آستانوں اور خانقاہوں کو برباد کرکے رکھ دیا ہے الحمدللہ
بھیرہ شریف کے ولی عہد صاحبزادہ محمد نعیم الدین شاہ صاحب ان دو عیبوں سے اللہ کے فضل وکرم اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ کریمانہ اور اپنے بزرگوں کی دعاؤں کی وجہ سے محفوظ ہیں۔
راقم (فقیر محمد اسلم رضوی)جب آپ کا انٹرویو کر رہا تھا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے اپنے بچپن سے لے کر اب تک جو بات سمجھ آئی ہے اور جو لذیذ تو ہے لیکن میرے لئے بہت خطرناک ہے وہ تکبر ہے۔
جس ماحول میں،میں موجود ہوں اس میں تکبر کرنا بالکل مشکل نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ چیز کسی بھی آدمی کو بہت تیزی سے تباہ کر دیتی ہے مجھے اس کا ہمہ وقت خطرہ لاحق رہتا ہے۔
الحمدللہ تبلیغی دورہ میں مجھے اس لحاظ سے اطمینان نصیب ہوا ہے کہ اس دورہ کے سفر میں کہیں بھی نفس نے سرکشی کرنے کی کوشش نہیں کی لیکن پھر بھی مجھے اس کا سر کچلنے کیلئے کوشاں رہنا ہے۔ آپ سے یہ بات سن کر دل بہت مسرور ہوا اور دل سے یہ دعا نکلی۔
رہے تا ابد فروزاں تیرا خاور درخشاں
تیری صبح نور افشاں کبھی شام تک نہ پہنچے
ہماری دعا ہے کہ اللہ کریم ہمارے حضور غریب نواز حضرت قبلہ پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب مدظلہ العالی کو صحت کے ساتھ عمرِ خضری نصیب فرمائے اور آپ کی اولاد امجاد کو آپکی عظیم روایات کا حسین وارث بنائے آمین بجاہ سید المرسلین ص